تفسير ابن كثير



سورۃ مريم

[ترجمہ محمد جوناگڑھی][ترجمہ فتح محمد جالندھری][ترجمہ عبدالسلام بن محمد]
وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِسْمَاعِيلَ إِنَّهُ كَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَكَانَ رَسُولًا نَبِيًّا[54] وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ وَكَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِيًّا[55]

[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد] اور کتاب میں اسماعیل کا ذکر کر، یقینا وہ وعدے کا سچا تھا اور ایسا رسول جو نبی تھا۔ [54] اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰۃ کا حکم دیتا تھا اور وہ اپنے رب کے ہاں پسند کیا ہوا تھا۔ [55]
........................................

[ترجمہ محمد جوناگڑھی] اس کتاب میں اسماعیل (علیہ السلام) کا واقعہ بھی بیان کر، وه بڑا ہی وعدے کا سچا تھا اور تھا بھی رسول اور نبی [54] وه اپنے گھر والوں کو برابر نماز اور زکوٰة کاحکم دیتا تھا، اور تھا بھی اپنے پروردگار کی بارگاه میں پسندیده اور مقبول [55]۔
........................................

[ترجمہ فتح محمد جالندھری] اور کتاب میں اسمٰعیل کا بھی ذکر کرو وہ وعدے کے سچے اور ہمارے بھیجے ہوئے نبی تھے [54] اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰة کا حکم کرتے تھے اور اپنے پروردگار کے ہاں پسندیدہ (وبرگزیدہ) تھے [55]۔
........................................

 

تفسیر آیت/آیات، 54، 55،

ابوالحجاز علیہ السلام ٭٭

حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہم السلام کا ذکر خیر بیان ہو رہا ہے۔ آپ علیہ السلام سارے حجاز کے باپ ہیں۔ جو نذر اللہ کے نام کی مانتے تھے، جو عبادت کرنے کا ارادہ کرتے تھے، پوری ہی کرتے تھے۔ ہر حق ادا کرتے تھے ہر وعدے کی وفا کرتے تھے۔ ایک شخص سے وعدہ کیا کہ میں فلاں جگہ آپ کو ملوں گا وہاں آپ آ جانا۔ حسب وعدہ اسماعیل علیہ السلام وہاں گئے لیکن وہ شخص نہیں آیا تھا۔ آپ اس کے انتظار میں وہیں ٹھہرے رہے، یہاں تک کہ ایک دن رات پورا گزر گیا۔

اب اس شخص کو یاد آیا، اس نے آ کر دیکھا کہ آپ علیہ السلام وہیں انتظار میں ہیں۔ پوچھا کہ کیا آپ علیہ السلام کل سے یہیں ہیں؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا جب وعدہ ہو چکا تھا تو پھر میں آپ کے آئے بغیر کیسے ہٹ سکتا تھا۔‏‏‏‏ اس نے معذرت کی کہ میں بالکل بھول گیا تھا۔

سفیان ثوری رحمۃاللہ علیہ تو کہتے ہیں، یہیں انتظار میں ہی آپ علیہ السلام کو ایک سال کامل گزر چکا تھا۔ ابن شوزب کہتے ہیں، وہیں مکان کر لیا تھا۔

عبداللہ بن ابو الحما کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے پہلے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ تجارتی لین دین کیا تھا، میں چلا گیا اور یہ کہہ گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہیں ٹھہریے۔ میں ابھی واپس آتا ہوں پھر مجھے خیال ہی نہ رہا، وہ دن گزرا وہ رات گزری دوسرا دن گزر گیا، تیسرے دن مجھے خیال آیا تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہیں تشریف فرما ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھ کو مشقت میں ڈال دیا، میں آج تین دن سے یہیں تمہارا انتظار کرتا رہا ۔ [سنن ابوداود:4996،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏
5102

یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اس وعدے کا ذکر ہے جو آپ علیہ السلام نے بوقت ذبح کیا تھا کہ اباجی آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔‏‏‏‏ چنانچہ فی الواقع آپ علیہ السلام نے وعدے کی وفا کی اور صبر و برداشت سے کام لیا۔ وعدے کی وفا نیک کام ہے اور وعدہ خلافی بہت بری چیز ہے۔

قرآن کریم فرماتا ہے «يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللَّهِ أَنْ تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ» [61-الصف:2-3] ‏‏‏‏ ” ایمان والو! وہ باتیں زبان سے کیوں نکالتے ہو جن پر خود عمل نہیں کرتے اللہ کے نزدیک یہ بات نہایت ہی غضبناکی کی ہے کہ تم وہ کہو جو نہ کرو “۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں منافق کی تین نشانیاں ہیں باتوں میں جھوٹ، وعدہ خلافی اور امانت میں خیانت ۔ [صحیح بخاری:33] ‏‏‏‏

ان آفتوں سے مومن الگ تھلگ ہوتے ہیں۔ یہی وعدے کی سچائی اسماعیل علیہ السلام میں تھی اور یہی پاک صفت جناب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی تھی۔ کبھی کسی سے کسی وعدے کے خلاف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کیا۔
5103

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ابوالعاص بن ربیع کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ اس نے مجھ سے جو بات کی، سچی کی اور جو وعدہ اس نے مجھ سے کیا، پورا کیا ۔ [صحیح بخاری:3729] ‏‏‏‏

سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تخت خلافت نبوی پر قدم رکھتے ہی اعلان کر دیا کہ جس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو وعدہ کیا ہو، میں اسے پورا کرنے کے لیے تیار ہوں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جس کاقرض ہو، میں اس کی ادائیگی کے لیے موجود ہوں۔ چنانچہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور عرض کیا کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وعدہ فرمایا تھا کہ اگر بحرین کا مال آیا تو میں تجھے تین لپیں بھر کر دونگا۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس جب بحرین کا مال آیا تو آپ نے جابر رضی اللہ عنہ کو بلوا کر فرمایا، لو لپ بھر لو۔ آپ کی لپ میں پانچ سو درہم آئے حکم دیا کہ تین لپوں کے پندرہ سو درہم لے لو ۔ [صحیح بخاری:4383] ‏‏‏‏

پھر اسماعیل علیہ السلام کا رسول نبی ہونا بیان فرمایا۔ حالانکہ اسحاق علیہ السلام کا صرف نبی ہونا بیان فرمایا گیا ہے۔ اس سے آپ کی فضیلت اپنے بھائی پر ثابت ہوتی ہے۔

چنانچہ مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اولاد ابراہیم علیہ السلام میں سے اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو پسند فرمایا ۔ [صحیح مسلم:2276] ‏‏‏‏۔
5104

پھر آپ علیہ السلام کی مزید تعریف بیان ہو رہی ہے کہ ” آپ علیہ السلام اللہ کی اطاعت پر صابر تھے اور اپنے گھرانے کو بھی یہی حکم فرماتے رہتے تھے “۔

یہی فرمان اللہ تعالیٰ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے «وَاْمُرْ اَهْلَكَ بالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْــَٔــلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ للتَّقْوٰى» [20-طه:132] ‏‏‏‏، ” اپنے اہل و عیال کو نماز کا حکم کرتا رہ اور خود بھی اس پر مضبوطی سے عامل رہ “۔

اور آیت میں ہے «يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيْكُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلٰىِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُوْنَ اللّٰهَ مَآ اَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ» [66-التحريم:6] ‏‏‏‏، ” اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچا لو جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر۔ جہاں عذاب کرنے والے فرشتے رحم سے خالی، زور آور اور بڑے سخت ہیں۔ ناممکن ہے کہ اللہ کے حکم کا وہ خلاف کریں بلکہ جو ان سے کہا گیا ہے، اسی کی تابعداری میں مشغول ہیں “۔

پس مسلمانوں کو حکم الٰہی ہو رہا ہے کہ اپنے گھر بار کو اللہ کی باتوں کی ہدایت کرتے رہیں، گناہوں سے روکتے رہیں، یونہی بے تعلیم نہ چھوڑیں کہ وہ جہنم کا لقمہ بن جائیں۔
5105

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اس مرد پر اللہ کا رحم ہو جو رات کو تہجد پڑھنے کے لیے اپنے بستر سے اٹھتا ہے پھر اپنی بیوی کو اٹھاتا ہے اور اگر وہ نہیں اٹھتی تو اس کے منہ پر پانی چھڑک کر اسے نیند سے بیدار کرتا ہے۔ اس عورت پر بھی اللہ کی رحمت ہو جو رات کو تہجد پڑھنے کے لیے اٹھتی ہے۔ پھر اپنے میاں کو جگاتی ہے اور وہ نہ جاگے تو اس کے منہ پر پانی کا چھینٹا ڈالتی ہے ۔ [سنن ابوداود:1308،قال الشيخ الألباني:حسن صحیح] ‏‏‏‏۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جب انسان رات کو جاگے اور اپنی بیوی کو بھی جگائے اور دونوں دو رکعت بھی نماز کی ادا کر لیں تو اللہ کے ہاں اللہ کا ذکر کرنے والے مردوں عورتوں میں دونوں کے نام لکھ لیے جاتے ہیں ۔ [سنن ابوداود:1309،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏
5106



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.